تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا[80] وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا[81]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔ [80] اور کہہ دے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے والا تھا۔ [81]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے [80] اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے واﻻ [81]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو۔ اور اپنے ہاں سے زور وقوت کو میرا مددگار بنائیو [80] اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے [81]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 80، 81،

حکم ہجرت ٭٭

مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری۔ [مسند احمد:223/1] ‏‏‏‏ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي:3139،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں پس اللہ کا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مدینہ میں داخل ہونا اور مکہ سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں۔

پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا۔ اتنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں۔

یہ غلبہ بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا۔ ہر زور آور کمزور کا شکار کر لیتا۔ «سُلْطَانًا نَّصِيرًا» سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لیے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ» [57-الحديد:25] ‏‏‏‏

” یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (‏‏‏‏ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لیے اور بھی (‏‏‏‏بہت سے) فائدے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے۔ “
4778

ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں۔

پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آچکا۔ سچائی اتر آئی، جس میں کوئی شک شبہ نہیں، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آگیا، کفر برباد و غارت اور بے نام و نشان ہو گیا، وہ حق کے مقابلہ میں بے دست و پا ثابت ہوا، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور وہ نابود اور بے وجود ہوگیا۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت «وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» [17-الإسراء:81] ‏‏‏‏ پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے۔ [صحیح بخاری:2478] ‏‏‏‏

ابو یعلیٰ میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی، آپ نے فوراً حکم دیا کہ ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ [ابن ابی شیبة فی المصنف:534/8:حسن] ‏‏‏‏
4779



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.